984

انسان جانوروں سے مختلف موذی بیماریوں کا شکار کیسے ہوتے ہیں؟

دنیا اس وقت کورونا وائرس سے نبردآزما ہے جو چین سے کم از کم 27 دیگر ممالک تک پھیل چکا ہے۔ نئے متعدی امراض کی وباؤں کو بعض اوقات ایسا واقعہ قرار دیا جاتا ہے جو بار بار رونما نہیں ہوتا۔

مگر یہ نیا وائرس جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ جنگلی جانوروں سے پھیلا ہے، جانوروں میں موجود جراثیم سے ہمیں لاحق خطروں پر ایک نئی روشنی ڈالتا ہے۔

یہ مستقبل میں بھی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے جب موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے تعلق میں تبدیلی آ جائے گی۔

جانور انسانوں کو کیسے بیمار کر سکتے ہیں؟

گذشتہ 50 برسوں میں کئی انفیکشن ارتقا پا کر جانوروں سے انسانوں تک تیزی سے پھیلے ہیں۔

1980 کی دہائی کا ایچ آئی وی/ایڈز بحران بن مانسوں سے پھیلا، 2004 سے 2007 کے دوران ایویئن فلو کی وبا پرندوں سے پھیلی، جبکہ 2009 میں سور کی وجہ سے سوائن فلو کی وبا پھیلی۔ حال ہی میں یہ پایا گیا کہ سانس کی شدید تکلیف پیدا کرنے والا وائرس سارس مُشک بلاؤ کے ذریعے چمگادڑوں سے انسانوں تک آیا جبکہ چمگادڑوں نے ہی ہمیں ایبولا وائرس دیا۔

انسان ہمیشہ سے ہی جانوروں کی وجہ سے بیمار پڑتے رہے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر نئے انفیکشن جنگلی حیات سے ہی آتے ہیں۔

مگر ماحولیاتی تبدیلی اس معاملے میں تیزی لا رہی ہے جبکہ شہروں میں زیادہ رہنا اور پہلے سے زیادہ بین الاقوامی سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی یہ امراض پھوٹ پڑیں تو تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔

امراض ایک نوع سے دوسری نوع تک کیسے منتقل ہوتے ہیں؟

زیادہ تر جانوروں میں کئی طرح کے بیکٹیریا اور وائرس ہوتے ہیں جو بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

ارتقا کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو جراثیم کی بقا اس میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جانداروں کو متاثر کریں، اور ایک نوع سے دوسری میں منتقلی اس کا ایک طریقہ ہے۔

نئے متاثر ہونے والے جانداروں کا مدافعتی نظام ان جراثیم کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدافعتی نظام اور جراثیم ہمیشہ ایک ایسے ارتقائی کھیل کا حصہ رہتے ہیں جس میں دونوں کا کام ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنا ہوتا ہے۔

Image result for hen pictures with humans"

مثال کے طور پر 2003 میں سارس کی وبا سے متاثر ہونے والے 10 فیصد افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ’عمومی‘ فلو کی وبا سے متاثر ہونے والے صرف 0.1 فیصد افراد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔

ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی جانوروں کے ماحول، ان کے رہن سہن اور ان کی خوراک پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔

اسی طرح انسانوں کا رہن سہن بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ اب دنیا کی 55 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے جبکہ 50 برس قبل یہ تعداد 35 فیصد تھی۔

اور ان نئے شہروں میں جنگلی حیات کو نئے گھر ملتے ہیں۔ پارکوں اور باغیچوں جیسی سبز جگہوں پر رہ سکنے والے جانور مثلاً چوہے، ریکون، گلہریاں، لومڑیاں، پرندے، گیدڑ اور بندر انسانوں کے پھینکے ہوئے کچرے سے گذر بسر کرتے ہیں۔

اکثر اوقات جنگلی انواع جنگل سے زیادہ شہروں میں کامیاب ہوتی ہیں کیونکہ یہاں بے حساب خوراک موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ شہری علاقے ارتقا پذیر بیماریوں کا گڑھ بن جاتے ہیں۔

سب سے زیادہ خطرے کی زد میں کون ہے؟

ایک نئے جاندار میں نئے امراض زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، اسی لیے کوئی بھی ابھرتا ہوا مرض تشویشناک ہوتا ہے۔ چند گروہ ایسے ہوتے ہیں جو بیماری سے زیادہ متاثر ہونے کی زد میں ہوتے ہیں۔

شہر کے غریب افراد ہی زیادہ تر صفائی اور نکاسی آب کے کام کرتے ہیں جس سے ان کا مرض کے حامل جانداروں اور ذرائع سے براہِ راست رابطے میں آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

غذائیت کی کمی کی وجہ سے ان کے مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتے ہیں اور خراب آب و ہوا اور گندے ماحول سے ان کا سامنا بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو وہ ممکنہ طور پر طبی سہولیات کے حصول کے متحمل نہ ہوسکیں۔

Image result for animal pictures with humans

اس کے علاوہ نئے انفیکشن بھی بڑے شہروں میں نہایت تیزی سے پھیل سکتے ہیں کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں اور ایک ہی طرح کی جگہوں کو چھوتے ہیں۔

کچھ معاشروں میں لوگ شہری جنگلی حیات کو غذا کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے شہروں سے یا پھر شہروں کے مضافات میں موجود علاقوں سے پکڑے گئے جانور استعمال کیے جاتے ہیں۔

بیماریاں ہمارے رویے کیسے بدلتی ہیں؟

اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ ہزاروں کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 250 سے زائد افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب چونکہ دنیا کے کئی ممالک اس وبا کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں تو ان کے ممکنہ اقتصادی نتائج بھی خاصے واضح ہیں۔

اب سفری پابندیاں عائد ہوچکی ہیں اور ان کے بغیر بھی لوگ تعلق میں آنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں انھیں بھی وائرس نہ لگ جائے۔ لوگ اپنے رویے تبدیل کرتے ہیں، سرحدیں پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے، موسمی تارکینِ وطن مزدور اپنی جگہیں تبدیل نہیں کر سکتے اور سپلائی چین میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔

ایسی کسی بھی وبا کے پھوٹنے پر یہی ہوتا ہے۔ سنہ 2003 میں سارس کی وبا نے عالمی معیشت کو چھ ماہ کے اندر اندازاً 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔ یہ کچھ حد تک تو لوگوں کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے تھا مگر اس کے علاوہ اقتصادی سرگرمیوں اور لوگوں کی نقل و حرکت میں کمی کی وجہ سے بھی یہ نقصان ہوا۔

Image result for animal pictures with humans"

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

دنیا کے مختلف معاشرے اور حکومتیں ہر نئے انفیکشن کی وبا سے ایک علیحدہ بحران کے طور پر نمٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ احساس نہیں کرتیں کہ دنیا کس طرح تبدیل ہو رہی ہے۔

ہم ماحول کو جتنا زیادہ تبدیل کریں گے، ہم اسے اتنا ہی برباد کریں گے جس سے بیماریوں کو پھیلنے کا موقع ملے گا۔

اب تک دنیا کے صرف 10 فیصد جراثیم کو ہی ریکارڈ کیا گیا ہے چنانچہ باقیوں کی تشخیص کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کون کون سے جانور ان بیماریوں کے حامل ہیں۔

مثال کے طور پر یہ جاننا کہ لندن میں کتنے چوہے ہیں اور ان میں کون کون سی بیماریاں موجود ہیں؟

شہروں میں رہنے والے کئی لوگ شہری جانوروں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں یہ احساس کرنا ہو گا کہ کئی جانوروں میں ممکنہ طور پر امراض ہوسکتے ہیں۔ یہ جاننا قابلِ فہم ہے کہ کون سے جانور شہروں میں نئے آئے ہیں اور کیا لوگ جنگلی جانوروں کو مار کر کھا رہے ہیں یا انھیں مضافاتی علاقوں سے شہری بازاروں تک لا رہے ہیں۔

نکاسی آب، کچرے کو ٹھکانے لگانا اور جراثیم کش اقدامات ان وباؤں کے پھوٹنے اور پھیلنے کو روک سکتے ہیں مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ماحول کی جانب اپنے رویوں کو تبدیل کیا جائے۔

وبائیں ہمارا مستقبل ہیں

اگر ہم یہ اعتراف کر لیں کہ نئی وبائیں پھوٹ اور پھیل رہی ہیں، تو ہم نئی بیماریوں سے لڑنے کے لیے ایک مضبوط پوزیشن میں آ جائیں گے، کیونکہ یہ بیماریاں ہمارے مستقبل کا لامحالہ حصہ ہیں۔

ایک صدی قبل ہسپانوی فلو کی وبا نے تقریباً نصف ارب لوگوں کو متاثر کیا جبکہ دنیا بھر میں تقریباً پانچ سے 10 کروڑ لوگ اس سے متاثر ہوئے۔

سائنسی ترقی اور عالمی صحت میں بڑی سرمایہ کاری سے مستقبل میں اس طرح کی وبا کی بہتر انداز میں روک تھام کی جا سکتی ہے۔

مگر خطرہ اب بھی موجود ہے اور ممکنہ طور پر یہ تباہ کن ہوسکتا ہے۔ اگر ایسی کوئی بیماری اب پھوٹی تو یہ دنیا کو بدل کر رکھ دے گی۔

گذشتہ صدی کے وسط تک مغرب میں چند لوگوں کا خیال تھا کہ انفیکشنز پر فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔

مگر جیسے جیسے عدم مساوات اور شہری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے ماحول کو مزید متاثر کر رہی ہیں، تو ہمیں یہ احساس کرنا ہو گا کہ ابھرتی ہوئی بیماریاں پہلے سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں